تبصرہ کریں

قرآن کا ریاضیاتی تصّور


قرآن کا ریاضیاتی تصّور

ذکی احمد

کتابِ الہٰی کے آغاز میں درج ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں شک نہیں ہے۔ نوجوانی میں اس جملہ کا مفہوم مجھ پر زیادہ واضح نہ ہوسکا تاہم کسی عالی شان محل میں داخل ہونے کے لیے مرکزی دروازے کی جو اہمیت ہوتی ہے۔ اس جملہ کی اہمیت مجھے کچھ اس طرح کی محسوس ہوئی۔ میرا ذہن اتنا مضبوط اور طاقتور نہیں تھا کہ میں اس نقطے کو جذبات اور محسوسات کی دنیا سے نکال کر اسے عقل و فہم کے حوالے سے سمجھ لیتا۔ وقت گزرتا رہا اور مَیں بنیادی علوم کے حصول میں مشغول رہا۔میٹرک کے بعد ریاضی کے سلیبس کے حوالے سے مجھے کوآرڈینٹ جیومیٹری کے مطالعہ کا موقعہ ملا۔ ریاضی کی کتاب میں فٹ نوٹ کے طور پر تحریر تھا کہ کوارڈینٹ جیومیٹری سترہویں صدی میں فرانسیسی ریاضی دان و فلسفی ڈیکارٹ نے دریافت کی تھی۔ اس کا ریاضی دان ہوناتو سمجھ میں آگیا لیکن اس کے فلسفی ہونے کا معمّہ میری توجہ کا مرکز بن گیا۔ کچھ مدت کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ڈیکارٹ نے بہ حیثیت ایک فلسفی انسانی ذات کے حوالے سے ایک اہم انکشاف یہ کیا ہے کہ سچ کی تلاش کا آغاز شک کی حالت سے ہوتا ہے ۔ یعنی کہ پے در پے شک کے بعد ہم پر جو پہلا سچ ظاہر ہوتا ہے وہ آپ کا اپنا وجود ہے۔ گویا کہ ڈیکارٹ کے مطابق ہم میں سے ہر کوئی اپنی پیدائش سے شک کی ایک پُرپیچ حالت لے کر اس دنیا میں وارد ہوتا ہے۔ ایک ذہنی کلک کے ساتھ ہی متذکرہ قرآنی جملہ اور کارتیسی شک میں ایک ربط نے مجھے ایک ذہنی سرور کی کیفیت میںدھکیل دیا۔ یہ کیفیت چند برسوں تک طاری رہی اس دوران دینیات اور علم ریاضی کے مجموعی تاثر سے ایسا لطف و سرور حاصل ہوا کہ مَیںدوسرے علوم کو درخور اعتناءنہ سمجھتا تھا۔ تاریخ، جغرافیہ، حیاتیات، حیوانیات، معدنیات، ارضیات، نباتیات، نفسات، قانون، کامرس بشمول اکاﺅنٹنگ اورآرٹس کے دیگر علوم کی میری نظروں میں اہمیت کم سے کم تر ہوتی گئی۔ اسے قدرت کی کوئی تدبیر کہیں یا کہ اسے مری ناروا سوچ کا نتیجہ کہیں، قدرت نے میرا روزگار ایک ایسے محکمہ سے جوڑ دیا جس کی بنیادیں اکاﺅنٹنگ اور ٹیکس قوانین پر کھڑی ہیں۔
اب یہ واضح ہوگیا کہ انسان چونکہ ہر لمحہ اپنی شک کی حالت سے معاملہ کرتا ہے اس لیے ایسی غیر یقینی حالت پر قابو پانے کے لیے کوئی ایسا معیار ہونا چاہیے جس میں رتّی بھر شک کی گنجائش نہ ہو۔ اس اعتبار سے قرآن کا ہر قاری جو کہ حالتِ شک میں اس کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو ا س کے لیے قرآن حکیم ایک لاریب پیمانہ بن جاتا ہے۔ قاری اور قرآن کے اس فکری ربط سے قاری کی ذہنی حالتیں بتدریج کم سے کم شک کی حالت کو رجوع کرکے یقین کے بلند درجات تک رسائی کا باعث بنتا ہے۔ بکثرت غور و فکر کے بعد قاری اور قرآن میں فرق تقریباً ناپید ہوجاتا ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ قاری نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں، ہے وہ قرآن…. مَیں ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ غیرمتوقع طور پر ذہن میں ایسے خیالات کی آمد ہوتی ہے جن کی بعد میں قرآن سے تصدیق ہوجاتی ہے۔ تصدیق کا یہ عمل وافر مقدار میں مثبت ذہنی توانائی کے ذخیرہ کا موجب بنتا ہے جس سے لطف و سرور کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ بصورتِ دیگر قرآن کی کثرت سے تلاوت کرنے پر قاری کو اپنے وجود میں قرآنی حقائق اور سچّائیوں کی موجودگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ سچ ایک ہے لیکن اس تک رسائی کے اَن گنت راستے ہیں، یہ ایک اور کئی کا مسئلہ ہے۔
انسان کی حالتِ شک اور قرآن کے لاریب ہونے میں تعلق سمجھنے کے بعد عنفوانِ شباب میں اس کتاب الہٰی کو دوسرے زاوّیہ سے پڑھنے میں میری دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔اس حوالے سے کئی مقامات پر قرآن کی سنگل اپروچ اور انسان کی اس کے مقابلے میں کئی آراءکی ممکنہ موجودگی واضح تر ہوتی گئی۔ اس دوران کارتیسی جیومیٹری(Cartesian Geometry) اور دیگر ریاضیاتی کلیوں(formulas)کے مطالعہ سے واضح ہوا کہ علم ریاضی میں تمام تر تفاصیل کے بعد طالب علم کو شک کی جس نوعیت سے واسطہ پڑتا ہے وہ ہاں اور ناں یا پھر پلس(+) اور مائی نیس(-) کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ذاتِ باری تعالیٰ میں کچھ پلس(+) کرنے یا اس سے کچھ مائنس(-)کرنا دونوں شرک کے زُمرے میں آتے ہیں۔ اس لیے شرک انتہائی درجہ کا ناقابلِ معافی گناہ ہے۔ دمِ تحریر قرآن کی سنگل اَپروچ کے حوالے سے سورہ القمر کی آیت ۴۵ یاد آرہی ہے جس میں حقِ تعالیٰ فرماتے ہیں:”اور ہمارا حکم بس ایک ہی ہوتا ہے اور پلک جھپکتے وہ عمل میں آجاتا ہے۔“ یہاں انسان کے ایک نہیں کئی حکم ہوتے ہیں جنھیں روبہ عمل بنانے کے لیے اسے کئی جتن کرنے پڑتے ہیں۔ پلک جھپکنے میں دونوں پلکیں ایک ہوجاتی ہیں ، کثرت وحدت کے تابع ہو کر لمحہ بھر میں حکم ربّانی کو حقیقت کا لبادہ پہنا دیتی ہے۔ اس کے مقابل انسانی حکم جھپکنے کی وحدت سے دور رہتے ہوئے حقیقی روپ دھارنے میں کئی طرح کی مشکلات سے گزر کر قدرے ناقص صورت میں معروضی سانچے میں ڈھلتی ہے۔ دنیاوی حاکمیت کے مقابلے میں بے شک اللہ ہی بڑا بادشاہ ہے۔ اللہ کی فکر و عمل میں کوئی فرق نہیں ہے جبکہ انسان کی فکر اور عمل دو حقائق ہیں جن میں کم از کم ایک درجہ کا فرق موجود رہتا ہے۔ جسے میں ”کم از کم ایک کے فرق کا اصول کہتا ہوں۔“
قرآن پاک کے چند ابتدائی کلمات اور کارتیسی پے در پے شک کے فلسفہ میں حیرت انگیز حد تک خوش گوار کلمات اور کارتیسی کے توسط سے میں علم ریاضی سے دینیات کے علم کو رجوع کرنے پر خود سے مائل ہوا۔ ہمارے پاس ایسی کوئی شہادت نہیں ہے جس کی مدد سے ثابت کیا جاسکے کہ ڈیکارٹ نے کبھی مطالعہ قرآن بھی کیا تھا۔ تاہم ریاضی اور دینیات کے علوم سے اس کی دلچسپی اس ایک واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے جس کے مطابق ہمیں بتایا گیا ہے کہ پیرس سے ہالینڈ جاتے ہوئے اس کے دائیں ہاتھ میں بائیبل اور بائیں ہاتھ میں یوکلڈ کی جیومیٹری تھی۔دینیات اور ا س کا ریاضیاتی بنیادوں پر قائم ایک تصّور کا خاکہ ہمیں یہاں مدہم صورت میں نظر آتا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ بالآخر تمام علوم کا منبع ومنشا خود انسان ہے۔ ڈیکارٹ کے شک پر شک اور پے در پے شک کے فلسفہ کی بنیاد بھی انسانی وجود سے اٹھائی گئی ہے۔ صدیوں بعد اس نے انسان کو فلسفہ کا مرکز قرار دیا ہے۔ یہی اسکیم اُلوہی تعلیمات میں پائی جاتی ہے۔ جہاں انسان کو مرکز مان کر تمام تر توجہ اس کی ذات میں بہتری او رکائنات سے اس کی ہم آہنگی تک پھیلا دی جاتی ہے۔ قرآنی تعلیمات کی قوت و ہیبت کو خود قرآن میں یہ کہہ کر بیان کیا گیا ہے کہ اگر یہ علم پہاڑوں پر اُتار ا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب چاغی میں ایٹمی (کنٹرولڈ) دھماکہ کیا گیا تو زیر زمین سے پہاڑ کی چوٹی تک کا رنگ بدل گیا تھا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مادّہ اور توانائی میں باہمی تبادلہ کے علم سے پہاڑ کانپ اُٹھے تھے۔اسی نقطہ کی وضاحت کرنے کے لیے ہم قرآن کی سورہ کہف (غار) کو رجوع کریں گے اور یہ واضح کریں گے کہ کس طرح اُلوہی تعلیمات میں ریاضیاتی سچّائیاں بھی مخفی صورت میں رکھ دی گئی ہیں…. اب ہم سب کی ذمّہ داری ہے کہ ہم تفکر و تدبر سے ان سچّائیوں کو تلاش کرکے انہیں اپنے مسائل کے حل میں استعمال کریں تاکہ ہم انفرادی اور اجتماعی طو رپر موجودہ دنیا کے جدید تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرسکیں۔
اصحاب کہف کے واقعہ کی تفسیر کئی نامور اور معروف علماءدینیات نے اپنی قابلیت اور لیاقت کے حساب سے کررکھی ہے۔ ریاضیاتی سچ کے حوالے سے ہمیں اس واقعہ کے اس حصّہ سے آغاز کرنا ہوگا جہاں یہ اصحاب نیند سے بیدار ہو کر غار میں اپنے قیام کی مدت کا تخمینہ لگانے کے حوالے سے آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک پوچھنے والے نے پوچھا۔”تم یہاں کتنا عرصہ ٹھہرے ہو گے، وہ بولا ہم ایک دن یا پھر اس سے بھی کم ٹھہرے ہوں گے(ترجمہ قرآن مولانا امین احسن اصلاحی) یہاں سوال کرنے اور جواب میں دو آراء(یعنی ایک دن یا اس سے بھی کم) نے وقت کی مدت کو اضافی(relative) ظاہر کیا ہے۔ یعنی انہیں محسوس ہوا کہ غار میں ان کے قیام کی مدت ایک دن یا پھر اس سے بھی کم تھی۔ وقت کے بارے میں یہ دو آراءوقت کے موضوعی(subjective) تصوّر کی ترجمانی کرتی ہیں۔ کانٹ کے ساتھ علماءاور دانشوروں نے وقت کی دو طرح سے تقسیم کی ہے۔ جب آپ کو کسی کا انتظار ہو تو آپ کہتے ہیں وقت گزر نہیں رہا۔ لیکن خوشی کے موقع پر آپ کہتے ہیں عید ایسے گزری کہ وقت گزرنے کا پتہ نہیں چلا۔ وقت کی یہ تفہیم وقت کی موضوعی اثر پذیری کو بیان کرتی ہے۔ اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر انسان کا اپنا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے جس کے مطابق وہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان کی داخلی کیفیات سے جڑے وقت کو ہم اس کے ہم پلہ وقت یعنی معروضی(objective) وقت سے جوڑ دیں گے تاکہ ڈویلٹی کے اصول کے مطابق اس معاملہ کی تفہیم کے لیے یکسو ہوجائیں۔فرض کریں کہ آپ ایک ہال میں لیکچر سن رہے ہیں۔ اگر کسی جبری حکم کے تحت یہ لیکچر سنا جارہا ہو تواس میں شامل ان لوگوں کو وقت گزرنے کا احساس نہ ہوگا جو لیکچر کے موضوع سے اپنا اندرونی رابطہ قائم رکھیں گے۔ تاہم جن کی کیفیات لیکچر کے مضمون اور متن سے ہم آہنگ نہ ہوںگی وہ بار بار گھڑی کی جانب یا پھر اِدھر اُدھر تاک جھانک میں لگے رہیں گے۔ انھیں وقت ٹھہرا ہوا محسوس ہوگا۔ ہال میں لگی وال کلاک ان دونوں گروہوں کی کیفیات میں خارجی واسطے سے تعلق کو قائم رکھے گی۔ اب آپ کی داخلی کیفیات پر مبنی وقت کے احساس میں کتنا بھی اُتار چڑھاﺅ موجود ہو تو پھر بھی لیکچر سننے والوں کا خارجی(گھڑی کا) وقت یکساں ہوگا۔ وقت کی مجموعی حیثیت بھی دلچسپ ہے۔ گھڑی اور کیلنڈر سے سب واقف ہیں۔ وقت کی جب ہم دِنوں میں پیمائش کرتے ہیں تو وہ کیلنڈر کی صورت میں ہمیں حاصل ہوتا ہے۔ ہم ماضی اور مستقبل کے دِنوں کو کیلنڈر میں وقت کی منجمد صورت میں موجود پاتے ہیں تاہم تاریخ کی وقتی اِکائی(یعنی ایک دن) کی جب ہم پیمائش کرتے ہیں تو گھنٹوں اور منٹوں کو گردش کرتی گھڑیوں کی سوئیوں سے حرکت کرتا دیکھتے ہیں۔ پس ماضی اور مستقبل منجمد وقت ہے جب کہ حال کا لمحہ ایک متحرک حقیقت ہے۔ اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حال میں زمان اور مکان باہمی انضمام سے حرکت کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ حال میں وقت کا ہم پلہ ساکن وقت ہے جو ہمارے لیے ماضی اور مستقبل بھی ہے۔اسی لیے گوتم بدھ کہا کرتے تھے کہ حال(present)میں جیو۔
مذکورہ بحث سے یہ واضح ہوگیا کہ اصحاب کہف کا غار میں وقت متغیر(variable)تھا۔ نیز یہ کہ وقت کی اندرونی اور بیرونی تقسیم سے اس کا اضافی ہونا ثابت ہوگیا ہے۔ بلکہ یہ ہمارے ذاتی مشاہدے کے حوالے سے پھیل بھی سکتا ہے اور سُکڑ بھی سکتا ہے۔ ان اصحاب میں سے ایک صاحب جب کھانا لینے کے لیے بازار گئے تو وہاں صورتِ حال مختلف تھی۔ نان بائی کو جب ان صاحب نے سکّوں کی صورت میں رقم ادا کی تھی وہ سکّے تین سو سال یا شاید تین سو نو سال پرانے تھے۔ ان سکّوں کی مدد سے ظاہر ہوا وقت دراصل کیلنڈر /گھڑی کا وقت تھا جسے ہم معروضی(objective)ٹائم کہتے ہیں۔ اس واقعہ کی ابتداءمیں ایک دلچسپ سوال حق تعالیٰ نے اٹھایا ہے: کیا تم نے کہف و رقیم والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کچھ بہت عجیب خیال کیا ہے؟ اس سوال میں موجود بے پناہ بصیرت کا ادراک گزشتہ کئی صدیوں سے سمجھ نہ سکے حتیٰ کہ بصرہ کے جیّد ریاضی دان اسحاق کندی بھی اس میں میکروفزکس کی بجائے بیسویں صدی کی مائیکرو یا زیریں ایٹمی(sub-atomic)دنیا کی موجودگی کے اشارے کی اہمیت کا ادراک نہ کرسکے۔ ورنہ آج دنیا کی حالت کچھ اور ہوتی۔ اس سوال کی تشریح ہم آگے بیان کریں گے۔ علاوہ ازیں اس واقعہ میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ اصحاب تعداد میں تین تھے اور ایک ان کا کتّا تھا اور یہ بھی کہ اگر لوگ انھیں سوتا دیکھ لیتے تو دہشت زدہ ہوجاتے۔
ہم آج جس سائنسی اور صنعتی انقلاب سے گزررہے ہیں اس کا آغاز سترہویں صدی سے ہوا تھا۔ اس انقلاب کو برپا کرنے میں یوں تو کئی چھوٹے بڑے سائنس دانوں، دانشوروں اور ریاضی دانوں کی کوششیں شامل ہیں لیکن اس کازیادہ ترکریڈٹ نیوٹن کو جاتا ہے۔ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ ہم آج یوسفی دور میں رہ رہے ہیں۔ کرّہ ارض کے حوالے سے لگ بھگ تین سو برس کا عرصہ (سترہویں سے بیسویں صدی) نیوٹنی دور کہلاتا ہے۔ اس دور کی بنیادی خصوصیت زمان اور مکان (Time and Space) کی دو الگ الگ اکائیوں کو تسلیم کرتے ہوئے تمام تر مظاہر فطرت کی تشریح کرنا تھا۔ تب یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمان(Time)ماضی سے حال کی جانب ایک سمت میں سفر کرتا ہے اوریہ ایک مطلق حقیقت ہے جس کا دوسری کسی اکائی یا حقیقت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ کائنات میں جاری ہر فعل اس کے تابع اور مرہونِ منت ہے۔ یعنی کہ گیا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح مکان کے تین ڈائی مینشن تھے یعنی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی جنھیں بالترتیب X،YاورZکی علامات سے ظاہر کیا جاتا تھا۔ نیوٹن کے مطابق مادّے کی رفتار کی کوئی حد نہیں تھی اور رفتار فاصلے کو وقت سے تقسیم کرنے پر حاصل ہوتی ہے۔ بیسویں صدی میں نظریہ اضافیت اور کوانٹم فزکس کے حوالے سے، نیوٹن کے مقابلے میں یکسر اُلٹ تصوّر پیش کیا گیا۔ جس کے مطابق مادّی اجسام کی حدِ رفتار روشنی کی رفتار(۰۰۰،۰۰۳ کلومیٹر فی سیکنڈ) ٹھہری۔ اب رفتار مستقل ہوگئی تاہم رفتار بنانے والی دونوں مقداریں، زمان اور مکان اضافی ثابت ہوئیں۔ اس اضافی (relative) حقیقت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہم سورہ نمل کو رجوع کریں گے۔
مفسرین نے سورہ نمل کی تفسیر بیان کر رکھی ہم اس میں پوشیدہ جدید طبیعات حقائق کو زیادہ نمایاں بنا کر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم یہاں اس سورہ مبارکہ کے اس حصہ کو زیر بحث لائیں گے جس میں معروضی وقت کے بہاﺅ میں انسانی شعور کے اثر انداز ہونے کے سبب سے پیدا ہونے والی تبدیلی کو بیان کیا گیا ہے۔ جہاں ہُد ہُد نامی پرندہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سباءکی بادشاہت اور اس کی وسیع ترین تخت کی اطلاع دیتا ہے۔ اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام دربار میں موجود حاضرین سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ کون ہے جو ملکہ کے ہمارے دربار میں حاضر ہونے سے قبل اس کا تخت ہمارے سامنے پیش کردے گا۔ جنوں میں سے ایک سرہنگ نے کہا”میں یہ تخت آپ کی مجلس اُٹھنے سے پہلے آپ کے حضور پیش کردوں گا۔“۔” اور میں اس کام پر قدرت رکھنے والا ایک امانت دار ہوں۔“ گفتگو امانت دار کی مذکورہ اہلیت تک نہ رک سکی۔ دربار میں موجود ایک صاحب علم نے ، کہ جس کے پاس کتاب کا علم تھا، کہا میں اس تخت کو آپ کی ایک پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کردوں گا۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے موجود تھا جسے دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔ اس مختصر تعارف کے بعد یہاں ہم دو بہت اہم نقاط کی وضاحت کریں گے۔ جنوں کے سرہنگ جن نے مجلس برخاست ہونے کی مدت تک اپنی کاروائی کو محدودرکھا۔ گویا کہ اس نے تخت کو چند گھنٹوں میں حاضر کرنے کی ذمہ داری لی۔ جن کا کردار ہمارے زمانے کے ایک مخلص اور بے لوث پروفیشنل سے ملتا جلتا ہے جو عمل کی بھٹی سے گزر کر کُندن بن جاتا ہے۔ تاہم یہ کُندن کتاب کا علم رکھنے والے صاحب علم کے مقابلے میں مٹھی بھر ریت کے برابر ہو کر رہ گیا۔ علم کی قوت سے گھنٹوں کا کام ایک لمحہ میں مکمل کرلیا گیا۔ اس سورہ مبارکہ سے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے مسائل کا حل جنوں کی مانند پروفیشنل لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے اس کے لیے ہمیں علم کی طاقت کو بروئے کار لانا ہوگا۔ یہ صاحبِ علم اُلوہی علوم کا ماہر ہونے کے ساتھ ایک ریاضی دان بھی لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ رفتارs/t =v= ہے۔ جہاں ‘s’فاصلہ اور ‘t’ وقت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس مساوات سے عام طالب علم سمجھ سکتا ہے کہ وقت ‘t’جتنا کم ہوتا جائے گا، رفتار اس قدر بڑھتی جائے گی اور جب وقت صفر کو چھوتا محسوس ہوگا کہ رفتار متناہی حدود کو چھوتی نظر آئے گی۔ مادّہ جب روشنی کی رفتار کو حاصل کرے گا تو وہ توانائی کی صورت میںE=mc2 کی مساوات کے مطابق ڈَھل جائے گی۔ اگر t=0کے برابر ہوجائے تو رفتار روشنی سے بھی تیز تر ہوجائے گی تاہم فی الحال مادّی دنیا میں ایسی کوئی رفتار معلوم نہیں ہوسکی ہے تاہم عقلی بنیادوں پر اس کو سمجھنا ممکن ہے۔ جن ، گویا روشنی کی رفتار کے زیریں ایک رفتار پر مادّے کی منتقلی کے ہنر سے واقف تھا۔ یعنی کہ اس کے عمل کا دائرہ کار سفلی دنیا تک محدود تھی۔ جب کہ صاحبِ علم روشنی کی رفتار سے زیادہ ایک علوی دنیا میں دسترس رکھتا تھا۔ہم آج دن تک جن کی سفلی دنیا تک پہنچ سکے ہیں جو زیریں ایٹمی (sub-atomic) دنیا کہلاتی ہے۔ ہمیں اللہ سے اُمید کہ صاحبِ علم کی دنیا تک، اگر ہم نے عقلی قینچی کا بھرپور استعمال کیا تو، رسائی کی راہیں ہمیں موجودہ صدی کے اختتام سے قبل دکھائی دینا شروع ہوجائیں گی۔ اپنے گزشتہ دو مضامین ”کائنات کا ریاضیاتی تصّور اور انسان کا ریاضیاتی تصّور“ میں اس جانب مَیںنے واضح اشارے اور نشانیاں بیان کی ہیں۔ جن میں سومار فقیر ٹھٹھہ والا اور دیوان مفتوں سنگھ کا دہلی جیل میں ایک مزدور کے ہاتھوں جیل میں مٹھائی کا موجود ہوجانا اور پاکپتن میں ایک وکیل صاحب کے والد صاحب کا سردیوں میں آم کھانے کا واقعہ شامل ہے۔ جِنّ کی ہنرمندی اور صاحبِ علم کی قابلیت سے یہ حقیقت ثابت ہوگی کہ زمان اور مکان اضافی حقائق ہیں جِنّ کا مشاہدہ کرنے والے کی شعوری حالت سے ایک اضافی تعلق پایا جاتا ہے جس کا ریاضیاتی طو رپر بیسویں صدی کے اوائل میں نظریہ اضافیت کی صورت میں دیا جاچکا ہے جس کی مساوات مندرجہ ذیل ہے:
t = to / 1- v2/c2
جہاںto =سفلی دنیا(گھڑی) کا وقت
v = عالم سفلی میں مادّے کی رفتار
اور = c روشنی کی رفتار۔
اس مساوات کے مطابق اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار سے حرکت کرے گی تو v=cہوجائے گا۔ ایسی صورت میں ‘t’وقت لا محدود ہوجائے گا۔پس کوئی جسم اس سفلی عالم میں روشنی کی رفتار سے حرکت نہیں کرسکتا۔ اسی طرح سے مکان(space) کی اضافیت کا بھی فارمولا ہے جسے مضمون کی طوالت کے حوالے سے یہاں بیان نہیں کیاجارہا۔
ہمیں معلوم ہے کہ اصحابِ کہف غار میں امر ربّانی کے طور پر اپنے پہلو(dimension)کبھی دائیں اور کبھی بائیں بدلتے رہے۔ غار میںان کا قیام اور پہلو بدلنے کا معاملہ مکان(space) سے جڑا ہے۔ اوپر ہم نے ذکر کیا کہ کس طرح ان لوگوں کے لیے زمان ایک اضافی حیثیت سے سامنے آیا۔ اب زمان و مکان ایک دوسرے کے ہم پلہ ہونے کے ناطے ایک ڈویلٹی کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس طرح کے ایک میں تبدیلی دوسرے ایک میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ زمان اگر اضافی ہے تو کیا مکان بھی اضافی ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ سورہ نمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے صاحب علم کو حکم دیا کہ کافر ملکہ کے طلب کردہ تخت کی شکل تبدیل کردو تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ملکہ زمانی مکانی ڈائی مینشن میں تبدیلی کا ادراک رکھتی ہے یا نہیں؟ ملکہ نے آمد پر تخت کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ تخت گو یا کہ میرا ہی ہے یوں وہ پہچاننے والوں میں ہوگئی۔ یہاں یہ بھی بتایا گیا کہ اس کی پہچان میں درستگی اس کے شرک سے دور ہونے کے سبب سے پیدا ہوئی۔ اس لحاظ سے موحد ہو کر وہ زمانی مکانی علم کی گہرائیوں سے شناسا ہوگئی۔ زمانی مکانی ڈائی مینشن کے باہمی تعلق اوراس میں تبدیلی سے متعلق علم میں دہشت کے عنصر کو سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی ہی دہشت ملکہ سباءپر بھی طاری ہوئی جب اپنے تخت کو دربارِ حضرت سلیمان علیہ السلام میں دیکھ کر وہ محل میں داخل ہوئی تو شیشوں کو دیکھ کر وہ سمجھی کہ یہاں پانی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زمان و مکان کی مساوات سے مادّے اور توانائی میں ایک دہشت ناک تعلق کا پہلو بھی ہم نے جاپان میں ایٹم بم کی تباہ کاریوں کی شکل میں دیکھ رکھا ہے۔ توحید کا کسی ذہن میں شائبہ کی صورت میں ظاہر ہوجانے کی حالت میں اور اس پر تخلیق کے آفاقی اصول کے تحت مادّے کا توانائی میںبدل جانے کی حقیقت کا ادراک رکھنے والے ذہن سے دہشت زدہ ہوجانا کوئی بعید از قیاس واقعہ نہیں ہونا چاہیے۔
مذکورہ بحث سے ہم سمجھے کہ زمان اور مکان کی ڈویلٹی حق تعالیٰ نے تخلیق کی ہے تاکہ ہم اپنے وجود کے ساتھ دیگر علوم کا احاطہ کرسکیں۔ ہم نے یہ بھی جانا کہ اس ڈویلٹی سے مادّے اور توانائی کی ڈویلٹی کو پگھلا کر انسانوں نے ثابت کر دکھایا کہ مادّے کو توانائی میں بدلا جاسکتا ہے۔ اس کا اُلٹ یعنی توانائی سے مادّے کی تشکیل کو کبھی مائیکروفزکس میں ثابت کیا جاچکا ہے گو کہ ایسی دریافت کو ایٹم بم پھوڑنے جیسی مشہوری نصیب نہیں ہوسکی۔ سورہ ذریات کی آیت ۹۴ میں اس ڈویلٹی(ذکی کی قینچی) کا کھلا ثبوت پیش کردیا گیا ہے۔ جہاں حقِ تعالی فرماتے ہیں کہ ”ہم نے ہر چیز کو جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے تاکہ تم غوروفکر کرسکو۔“ اس نکتہ کی مزید وضاحت کرنے کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر دائیں کے ساتھ بائیں ہے، اوپر کے ساتھ نیچے ہے، ظاہر کے ساتھ باطن ہے، اوّل کے ساتھ آخر ہے، سچ کے ساتھ جھوٹ ہے، گناہ کے ساتھ ثواب ہے، جمع کے ساتھ نفی ہے، ہر بندے کے ساتھ رسول ہے، ہر رسول کے ساتھ اللہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ بائی پولر ڈویلٹی نہ ہوتی تو انسان کا اپنا مرتب کیا ہوا علم اور اللہ کاعطا کردہ علم لدّنی ہمارے لیے سب ناقابل فہم ہو کر رہ جاتا۔ یوں انسان اس کرّہ ارض سے کب کا ناپید ہوچکا ہوتا۔ اس ڈویلٹی کے لحاظ سے ہم علم ہندسہ و اعداد کو محض نفی و اثبات کی علامات کے حوالے سے سمجھ کر دنیا کے تمام علوم اور کائنات میں جاری تمام مظاہر فطرت و انسانی معاملات و غیرہ کو ریاضیاتی بنیادوں پر تفصیل سے بیان کرسکتے ہیں۔ اسی تسلسل میں حقِ تعالیٰ، سورہ یٰسین کی آیت ۶۳ میں فرماتا ہے کہ ”پاک ہے وہ ذات جس نے زمین سے نکلنے والی ہر چیز کو اور خود لوگوں کے اندر سے پیدا ہونے والی چیزوں کو اور ان چیزوں کو جنھیں وہ جانتے نہیں جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے۔‘ یہاں بھی ڈویلٹی کے ذریعہ معلوم سے نہ معلوم کی طرف گامزن ہونے کے لیے انسانوں کو حصولِ علم کی راہ دِکھائی گئی ہے۔ ان دو آیت کے موضوع اور متن سے میری قینچی کی موجودگی اور اس کی معنیٰ خیزی کی بڑی توانا اور بھرپور تصدیق ہوتی ہے۔
میں نے ”انسان کے ریاضیاتی تصّور“ نامی مضمون میں (اجراءکے گزشتہ والیوم میں) بڑی تفصیل سے انسان کی جسمانی اور شعوری ساخت کے بارے میں قدیم علوم بشمول تصوّف اور جدید کوانٹم فزکس کے اصولوں کو ملا کر ایک ہم آہنگ تصوّر پیش کیا ہے۔ وہاں ہم نے ریاضیاتی طریقہ کار کے مطابق بیان کیا تھا کہ کسی طرح شوڈنجر کی بلی انسانی شعور کی نگاہ پڑنے پر ہمارے عالم رنگ و بو سے نکل کر ساتھ ہی موجود ایک دوسرے عالم میں(انتقال) منتقل ہوجاتی ہے۔ وہاں ہم نے حضرت غوث علی شاہ کے فرمودات سے آراستہ تذکرہ غوثیہ نامی کتاب میں ایک بزرگ کا زندہ بیل پرتوجہ مرکوز کرکے اسے ہلاک کردینے اور الور کے مسافر خانے میں ایک ہندو صوفی کا ایک مردہ طوطے کو کچھ وقت کے لیے جاندار بنانے کے واقعات کو بیان کیا تھا۔ ریاضیاتی بنیادوں پر تسخیر کائنات اور تسخیر ذاتِ انسانی کی نوید ہمیں خود حقِ تعالیٰ نے دے رکھی ہے۔ یہ ہماری کوتاہ بینی ہے کہ ہم ان رموز و اسرار کی اہمیت اور افادیت سے ہنوز ناواقف ہیں۔ سورہ حٰم السجدہ کی آیت ۳۵ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”ہم عنقریب ان کو اطراف عالم میں اور خودان کی ذات میں بھی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پرظاہر ہوجائے گا کہ حق ہے۔“
انسان کے ریاضیاتی، کائنات کے ریاضیاتی ، خدا کے ریاضیاتی اور قرآن کے ریاضیاتی تصوّرات کے حق میں مذکورہ آیت مبارکہ ایک بیّن ثبوت ہے۔ اس کائنات میں آج دن تک اللہ کا سب سے عظیم الشان شاہکار خود حضرتِ انسان ہے۔ میرے نئے تفکرات کا محور و مرکز انسان ہی ہے۔ اگر ہم اس کی ذات اور اس کے اردگرد پھیلے عالم کا درست ریاضیاتی تجزیہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ امر اس سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہوگا کہ ہم کئی بوسیدہ علوم کی گھٹڑیاں ڈھونے کا جوکھم اٹھاتے پھریں۔
اب ہم قرآن کی سورہ معارج کی آیت ۰۴ کو رجوع کریں گے۔ جس کے مطابق حق ِ تعالی فرماتے ہیں: ”میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے خداوند کہ ہم یقینا قادر ہیں۔“
یہاں مشرق اور مغرب کی جمع کا ذکر پایا جاتا ہے۔ عقلی قینچی کے حوالے سے اور اوپر بیان کیے گئے واقعات کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ ہماری موجودہ دنیا کے ساتھ ہی یا کسی طرح سے اس کے اندر ہی ایک اور دنیا موجود ہے، جو عالم مثال کی مانند ہے، جہاں ہم اس دنیا سے انتقال کرنے کی صورت میں فوری طور پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ ایسی ایک دنیا کی موجودگی اگر آپ زندگی محسوس نہ بھی کرسکیں تو پھر بھی یہ ہمارے عقلی و غیر عقلی مسائل کے حل کے لیے ایک بہترین حجّت کا سامان مہیا کرتی ہے۔ اسی سورہ کی آیت ۹۳ ہمارے ریاضیاتی تصوّرات کے کل ڈھانچہ کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے کہ:”بے شک ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اس چیز سے جس کو وہ جانتے ہیں۔“دمِ تحریر اس آیت کے مطالعہ سے ذہن میں خیالات فلیشز (Flashes) کی مانند چمکنے لگے ہیں۔ افکار کی ایک بوچھاڑ ہے جو تحریرکے عمل پر اثرانداز ہورہی ہے۔ یہ فرمانِ الہٰی اپنے اندر علم و دانش کا بیکراں خزانہ لیے ہوئے ہے۔ بلکہ گزشتہ چار ہزار سالوں سے معلوم انسان کی فکری اور علمی کاوشوں کا جائزہ لے کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان تمام کوششوں کے نچوڑ کو ہم مذکورہ ایک آیت میں درج متن سے بیان کرسکتے ہیں۔ جس نے خود کو سمجھا اس نے خدا کو سمجھا۔
ظاہر دار یہ کہنے سے نہیں تھکتے کہ اس آیت میں کیا گہرائی ہے۔ بے شک انسان کو خدا نے کھنکتی مٹی سے بنایا ہے۔ ظاہر دار معاملہ کو کلاسیکل فزکس کی حد تک نمٹا دیتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ مٹی کے ذرّوں میں ایک جہان آباد ہے۔ اللہ نے انسان کو مٹی کا پُتلا بنایا پھر اس میں روح پھونک دی۔ روح اور جسم کی ڈویلٹی مکمل ہونے پر انسان علم و عمل کے لحاظ سے موثر و مکمل ہوگیا۔ آج اکیسویں صدی میں ہمیں معلوم ہے کہ مٹی(silicon) یا دوسری کسی بھی دنیاوی چیز یا مادّے کے اندر بہت ہی خفیف ذرّات کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس انتہائی ذرّے(Atom) کے اندر ذرّات کی ایک بہت ہی مہین اور پیچیدہ سی دنیا رواں دواں ہے۔ اس باطنی یا زیریں ایٹمی دنیا کی حدیں ہمارے خیالات کو چھوتے ہوئے دوسری ایک اَن دیکھی دنیا کی سرحدوں سے جا ملتی ہیں جن کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں۔ جس دن انسانوں نے مادّے کی ساخت میں شامل بنیادی اینٹ دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اس دن اس دنیا اور کائنات کا کل نقشہ بشمول وجودِ انسانی، ایک بہت ہی عظیم الشان مرحلہ میں داخل ہوجائے گا۔ ہمارے بنانے میں جو چیز اور جو ترتیب(order) ہمارے خالق و مالک نے اپنا ئی ہے اس کے معلوم ہونے پر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اپنے خالق کے کتنے قریب ہوجائیں گے۔ شیخ فرید الدین عطار کی منطق الطیر میں درج حق کے متلاشی پرندے جب سیمرغ کی بارگاہ پہنچے تو وہ اس لمحہ وِرطہ¿ حیرت میں ڈوب گئے جب انہیں سیمرغ کی شکل میں اپنی شکلیں نظر آنے لگیں۔ تاہم عطارؒ نے خوب کہا کہ ایسا کچھ موجودہ زمانی، مکانی جال سے بُنی دنیا میں ہونا ممکن نہیں ہے۔ دراصل تسخیر کائنات اور تسخیر ذات ِ انسانی ایک ہی سکّہ کے دو رُخ ہیں۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ روحانی اور مادّی تقسیم ڈویلٹی کے اصول سے پیدا ہوئی ایک مجبوری ہے۔ ان میں موجود فرق کہیں اور کبھی ختم ہوجائے گا۔ ایسی ایک بلند فکری حالت تک رسائی ہی ہماری علمی و فکری کوششوں کی منزلِ مقصود ہونی چاہیے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ایک فطّین مفسرِ قرآن حکیم ہیں۔قینچی کے ثبوت میں چند حقائق ان کی تحریروں میں بھی جلوہ افروز ہیں۔ ایک ان دیکھی مثالی دنیا کی موجودگی کو بیان کرتے ہوئے حضرت لکھتے ہیں:”جاننا چاہیے کہ اکثر حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسا عالَم موجود ہے جس کی ترکیب (composition) عناصر سے نہیں ہے۔اس میں ہر ایک جسمانی چیز کی مناسب صفت اور حالت میں وہ چیزیں جو معنوی ہیں صورت پکڑتی ہیں، اور قبل اس کے کہ چیزیں زمین پر ظاہر ہوں، پہلے اس عالَم (مثال ) میں موجود ہوجایا کرتی ہیں اور موجود ہونے کے بعد ہُو بہو انھیں معانی کے انداز کی ہوتی ہیں اور اکثر ایسی چیزیں جن کا کہ عام نظر میں کسی قسم کا جسم نہیں ہوا کرتا وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ میں منتقل ہوتی ہیں، نازل ہوتی ہیں(ملکہ سباءاور حضرت سلیمان کا واقعہ) لیکن عام انسانوں کو نظر نہیں آتیں۔“ ڈویلٹی کی مزید تجدید رسول اللہ ﷺ کے واقعہ معراج کے دوران چار نہروں کا دیکھنا تھا۔ جس میں دو نہریں اندر کی جانب اور دو ظاہر کی طرف تھیں۔ آپ نے جبرئیل سے فرمایا یہ دونوں کیا ہیں؟ جبرئیل نے فرمایا دو اندر کی تو جنت میں ہیں اوریہ دونوں ظاہر میں نیل اور فرات ہیں۔ آنحضرت کو واقعہ معراج میں یہ بھی بتایا گیا کہ اللہ نے عقل کو پیدا کرکے فرمایا سامنے ہو۔ وہ سامنے ہوئی۔ پیٹھ پھیر لی اور فرمایا کہ پروردگارِ عالم کی طرف سے یہ دوکتابیں ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے اس کی تشریح تو نہیں کی پھر بھی قاری یہا ں سمجھ سکتا ہے کہ عقل کا سامنے آنا اور پھر پیٹھ دِکھانا، اس کی سرشت میں ڈویلٹی یا عقلی قینچی کے عنصر کا گوندھے جانا ہے۔ عقل کے پیٹھ پھیرنے میں ایک نکتہ یہ اہم ہے عقل نے گھومتے وقت اس سمت میں حرکت کی تھی۔ یعنی یا تو وہ گھڑی موافق(clock wise) یا پھر گھڑی مخالف(counter clock wise)سمت میں گھومی ہوگی۔ یعنی کہ دربارِ الہٰی میں عقل کی دو میں سے کسی ایک سمت میں حرکت کا امکان قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ زیریں ایٹمی ذرّات اپنے توازن کی خاطر گھڑی موافق و مخالف سمت میں حرکت (spin)کرتے ہیں کچھ ان میں آدھے چکر(half spin) والے اور کچھ پوری سپن لینے والے ذرّات موجود ہوتے ہیں۔ مادّہ اپنی انتہائی باریک حالت میں عقل کی مانند دائیں بائیں گردش کو نبھاتا ہے یہی یکسانیت عقل اور مادّے میں ریاضیاتی رشتہ کا سبب بنتی ہے۔ یہاں ہمیں اس گہرائی دنیا و دین کی ڈویلٹی سمٹتی نظر آتی ہے۔ متذکرہ بالا ساری گفتگو کو سمیٹ کر اس کا نچوڑ سورہ یونس کی آیت نمبر ۶۲ میںاس طرح بیان کیا گیا ہے۔
”اور کون ہے جو زندہ کو مُردہ سے اور مُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اورکون ہے جو ساری کائنات کا انتظام فرماتا ہے ؟ تو جواب دیں گے اللہ! تو کہو کہ کیا تم ڈرتے نہیں پس وہی اللہ تمھارا ربّ ِحقیقی ہے۔ تو حق کے بعد گمراہی کے سواکیا ہے۔ تو کہاں تمھاری عقل اُلٹ جاتی ہے۔“
پندرہویں صدی عیسوی کے آخری عشرے میں اٹلی کے ایک متصوّف ریاضی دان لوکا پیکالی نے علم حساب کی ایک تاریخ بنام ”سوما ارتھٹیکا“ تحریر کی تھی۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک بھاڑے کا مُنشی (Chartered Accountant) تھا جس کا روزگار وینس شہر کی مچھلی مارکیٹ کے تاجروں کی پارٹ ٹائم ملازمت تھا۔ کتاب کے اختتام پر اس نے چند صفحات کا ایک ایڈنڈم منسلک کیا تھا۔ جس میں اس نے اپنے تجربہ و علم کی بنیاد پر بہی کھاتوں کی تحریر کے حوالے سے چند بنیادی اصول تحریر کیے تھے۔ یہ اصول ریاضی کی دو علامات جمع(+) اور نفی(-) پر ڈیبٹ اور کریڈٹ کی ملمع کاری سے تیار کیے گئے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے ہر چیز جوڑے کی صورت میں پیدا کی ہے تو پھر یہ کیونکر ممکن ہوتا ہے کہ اکاﺅنٹنگ کا علم سنگل انٹری سسٹم پر کھڑا رہتا ۔ ایک تجارتی لین دین میں دو فریقین کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ ان میں ایک فروخت کنندہ اور دوسرا خرید کنندہ کہلاتا ہے۔ اسی جوڑی کو ڈیبٹ اور کریڈٹ کی علامات سے ملا کر پکالی نے اکاﺅنٹنگ کے علم کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ علم آج بھی اپنی وسعتوں میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی مساوات مندرجہ ذیل ہے:

Assets = Liabilities
Debit (+) (-) Credit Debit (+) (-) Credit
اس مساوات میںA+Lکے برابر ہے۔ یہ اپنی سرشت میں نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کی مساوات جیسی ہے۔ اس مماثلت پر ان کے بیچ فر ق پر کہیں اور گفتگوکی جائے گی۔ قارئین کو سورہ جن کی ۸۲ آیت یاد ہوگی جس میں بیان کیا گیا ہے:
”اور وہ ہر چیز کو شمار میں رکھے ہوتا ہے“۔ اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاﺅنٹنگ کرنا صفتِ خداوندی ہے۔ پس حقِ تعالیٰ ہی اکاﺅنٹنگ کے علم کا بانی و مبانی ہے۔ ہم جب اکاﺅنٹنگ کا عمل دہراتے ہیں تو اصل میں ہم حقِ تعالیٰ کے شمار کرنے کے عمل کی نقل کررہے ہوتے ہیں۔ جب اللہ نے شمار کیا تواس اُلوہی عمل سے اشیاءکا موجود ہونا ہی ثابت نہیں ہوا بلکہ اعداد کی تھیوری بھی اس امر ربّانی سے ثابت ہوگئی۔ تخلیق کے مراحل سے گزر کر ہم آج دیکھتے ہیں کہ آڈٹ اور اکاﺅنٹنگ کا علم دو طرح کی تقسیم کے تابع ہے۔ یعنی مائنڈ اور میٹر کی ڈویلٹی ….اسٹیٹمنٹ آف اکاﺅنٹس پوری طرح سے نمبرز کے ذریعہ بیان کی جاتی ہیں، اکاﺅنٹس کا یہ حصّہ خالصتاً ذہنی نوعیت کی اکائیوں(اعداد) پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان اعداد کے ہم پلہ خارجی دنیا میں موجود اشیائ(میٹر) ہوتی ہیں۔ گویا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ایک ہزار روپے کی پچاس کلوچینی تو یہاں ہزار کا عدد اور پچاس کا عدد ذہنی اکائیاں، جبکہ چینی کی یہ مقدار(میٹر) خارجی دنیا کا ایک فیکٹ ہوتا ہے۔ ان دونوں حقائق (ذہنی اور مادّی) کے درمیان درست اور موثر رشتہ کا مطالعہ کرنا آڈٹ کہلاتا ہے۔
فی زمانہ آڈٹ کی مذکورہ فلسفیانہ تعریف پر انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ ۱۰۰۲ءکی دفعہ ۷۷۱ اور سیلز ٹیکس ایکٹ مجریہ ۰۹۹۱ءکی دفعہ ۵۲ کے تحت ٹیکس گزاروں کے گوشواروں کا آڈٹ کیاجاتا ہے۔ قاری یہاں سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح ہم قرآنی فلسفہ حیات سے اپنے لیے دنیاوی قوانین کی صورت گری کرسکتے ہیں۔
آڈٹ کی مذکورہ تعریف کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں آڈٹ کا پروسس کیسے نمٹایا جارہا ہے۔ کسی بھی تجارتی اکائی/ادارے کے اکاﺅنٹس میں خرید، فروخت اور اخراجات کو روپوں کی مقدار میں اعداد کے حوالے سے قلم بند کیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ معاشیات کے حوالے سے جو چیز وزن رکھتی ہو، حجم رکھتی ہو، جگہ گھیرتی ہو اور جو قابلِ قدر ہو تجارتی/ کاروباری جنس کہلاتی ہے۔ ایسی جنس کی قدر روپوں میں جبکہ اس کی مقدار کلو گرام، ٹن، میٹر، مربع میٹر یا مکعب میٹر میں بیان کی جاتی ہے۔
اصولی طور پر آڈٹ کا آغاز مال موجود(اوپنگ اسٹاک) کے اعداد و شمار سے ہونا چاہیے۔ اس کی دی گئی قدروقیمت(value) کو بنیاد بنا کر مال کا وزن یا رقبہ یا حجم میں سے کسی بھی اعتبار سے مقدار(quantity) کا تعین کیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد سال کے درمیان مال کی خرید کو روپوں کے ساتھ اس کے طبعی خواص(جنس کا نام و مقدار) وغیرہ کے اعداد و شمار کے اندراج کو یقینی او ر درست تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔ اسی طرح سیلز اور باقی ماندہ(closing stock) اسٹاک کو قدروقیمت کے حوالے سے موضوع بحث بنایا جانا چاہیے۔ اسی طرح کیش(نوٹ اور سکّے) بھی چیزیں ان کی مقدارکو سال کے آغاز و اختتام کے وقت کے ساتھ دوران سال حرید و فروخت اور اخراجات کے حوالے سے ان کی حرکت کو بھی درست تناظر میں سمجھاجانا چاہیے۔ ریاضیاتی فلسفہ کے نکتہ نظر سے قاری یہاں نوٹ کریں کہ آڈٹ میں قدر(Value) روپوں میں اور جنس(goods/commodity) کی طبعی شکل و صورت میں مقدار کے ناطے سے ایک اٹوٹ انگ ڈویلٹی پیدا ہوتی ہے۔ آڈٹ کو عقلیلحاظ سے ایک معنی خیز پروسس بنانے کے لیے یہ ڈویلٹی ایک بھرپور اور فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اس ڈویلٹی کی تفہیم کے بغیر انسانی عقل آڈٹ کے فنکشن کی انجام دہی سے قاصر رہے گی۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا عقل اپنے یوم پیدائش سے لے کر آج دن تک اپنی کارفرمائی کے لیے کسی نہ کسی شکل میں ایک ڈویلٹی کی موجودگی کا تقاضہ کرتی رہی ہے۔ اس مختصر بحث کے بعد قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح سورہ جن کی اٹھائیسویں آیت میں آڈٹ کا تمام تر راز مخفی رکھ دیا گیا ہے۔
ٹیکس کے حوالے سے ملک میں نوے فیصد آڈٹ کا عمل یکطرفہ اور آدھے سچ پر مبنی ہے۔ جنس کی مقدار اور روپوں میں درج اس کی قدر کے درمیان پیدا ہوئی ڈویلٹی کو نظرانداز کرکے زیادہ تر آڈیٹرز (انکم ٹیکس) فقط روپوں میں درج ویلیوز کو اپنی آڈٹ روپرٹوں کا محور خیال کرتے چلے آرہے ہیں۔ اصول موازنہ کے تحت وہ گزشتہ سال کے اکاﺅنٹس میں درج اعداد و شمار کا موجودہ سال کے اکاﺅنٹس میں درج اعداد و شمار سے موازنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اگر سیلز(فروخت) میںکمی واقع ہوئی ہو تو ٹیکس گزار کی غیر متعلقہ اور نامعقول توضیحات جیسا کہ شہر میں لاءاینڈ آرڈر کی خرابی یا کسی قدرتی آفت وغیرہ کو سرکاری آڈیٹر تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ جلد بازی میں تسلیم کی گئی ایسی یک طرفہ سوچ ریونیو کے لیے انتہائی مضر رساں ثابت ہورہی ہے۔ایسی رپورٹوں کی بنیاد پر بنائے گئے آڈرز اپیل کا دباﺅ برداشت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یوں ایسی بودی اپروچ برائی کو پھلنے پھولنے کے لیے سازگار ماحول تیار کرتی ہے۔ اس سے محکمہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں ضعف پیدا ہونے کے سبب سے دیگر اہداف، جیسا کہ، جی ڈی پی ٹو ٹیکس ریشیو، اور حکومتی اخراجات اور ترقیاتی کاموں کی مد میں اخراجات کے لیے ٹیکس رقومات کے حصول میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس کمی میں قابو پانے کے لیے ہمیں نازیبا شرائط پر ملکی اور غیر ملکی آقاﺅں سے بھاری قرضہ لینا پڑتے ہیں۔ یہ مشاہدہ سے ثابت شدہ ہے کہ جو لائق آڈیٹر مقداروں اور ویلیوز کی ثنویت کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنی رپورٹیں تیار کرتے ہیں ان کے فیصلے اعلی عدالتوں سے بڑی مختصر سی بحث کے بعد ریونیو کے حق میں ہوجاتے ہیں۔ اگر نظام کو صاف و شفاف اور سچ پر مبنی بنانا ہے تو پھر ایسی کسی بھی کاوش میں علم کا رول مرکزی ہونا چاہیے۔ کسی سسٹم کو ریاضیاتی علم کی بنیاد پر استوار کرنے کی بجائے اسے محض افراد کی پاکدامنی اور روشن ضمیری پر چھوڑنا ایک مکمل سچ میں سے اس کے نصف کو منہا کرنے کے مترادف ہوگا۔
ہم نے اپنی بحث سے واضح کیا ہے کہ کس طرح ہم اپنی عقلی قینچی کے استعمال سے قرآن حکیم کے پیغام سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ قاری اگر مطالعہ قرآن کے دوران قلم اور کاغذ کا استعمال شروع کردے تو اسے جلد ہی احساس ہوجائے گا کہ اس نے ان لوگوں کے مقابلے میں عظیم الشان ذہنی اور فکری ترقی حاصل کرلی ہے جو قلم اور کاغذ کا استعمال کیے بغیر عرصہ دراز سے کلام الہی کے مطالعہ سے ثواب کما رہے ہیں۔

اِس شمارے / ادب پارے پر تبصرہ کیجیے