تبصرہ کریں

”اپنا گریباں چاک“کے کچھ فِکر انگیز پہلو – حامد سعید اختر


بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر

”اپنا گریباں چاک“کے کچھ فِکر انگیز پہلو

جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی خود نوشت سوانح حیات ”اپنا گریباں چاک“ عصرِ حاضر کی ایک اہم تصنیف ہے۔ یہ کتاب نہ صرف پاکستان کی گذشتہ سڑسٹھ سال کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے بلکہ مصور پاکستان علامہ اقبالؒ کی نجی زندگی کی بعض اہم پہلوﺅں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ بارہ سال قبل اشاعت کے وقت ہی سے یہ کتاب مبصرین کی توجہ کا مرکز رہی ہے جنہوں نے اس پر سیر حاصل تبصرے کیے ہیں ۔ ہر مبصر نے اپنی دانست کے مطابق اِس پر دل کھول کر تبصرہ کیا ہے۔ بعض مبصرین نے موصوف کی اس اہم تصنیف کے کچھ حصوں کو متنازعہ قرار دیا ہے ۔ یہ امر قابلِ صد ستائش ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہر طرح کی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے اور کسی بھی منفی رائے کا برا نہیں مانا۔ ان تبصروں میں ڈاکٹر پرویز پروازی کا وہ تبصرہ بھی شامل تھا جو بے لاگ ہونے کے بجائے احمدیت کی گہری چھاپ لیے ہوئے انتہائی منفی اور متعصبانہ تبصرہ تھا۔ فاضل مصنف نے حال ہی میں اپنی سوانح حیات کی اشاعت ثانی کے لیے اس میں مزید ابواب کا اضافہ کیا ہے تاکہ تادم تحریر پیش آمدہ تمام واقعات کا احاطہ ہوسکے۔
راقم نے زیر نظر تبصرے کی ایک نقل ڈاکٹر صاحب کو بھی ارسال کی تھی۔ مجھے انتہائی خوش گوار حیرت ہوئی جب موصوف نے نہ صرف ذاتی طور پر فون کرکے میرے تبصرے کو سراہا بلکہ بعد ازاں اپنے دستِ مبارک سے تحریر کردہ استحسان و تبریک کا خط بھی ارسال فرمایا۔ مذکورہ تبصرہ قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کرنا راقم کے لیے باعثِ انبساط ہے:-
ہم سوانح کے تیسرے صفحے سے ابتدا کرتے ہیں جہاں مصنف نے پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کا زیر نظر کتاب کے مسودّے کو بنظر غائر پڑھنے اور مصنف کو اپنی تجاویز سے مستفید کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ پروفیسر صاحب نے مسودے کی نظر ثانی کا فریضہ احسن طریقے سے نہیں نبھایا ورنہ کتاب میں زبان و بیان کی متعدد اغلاط نہ پائی جاتیں۔ اب چلئے پیش لفظ کی جانب۔ مصنف نے اظہار خیال کیا ہے کہ ”انسان سے بحیثیت ایک باشعور فعلِ خدا“ یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ جو بھی اُس پر گذرے بیان کردے تاکہ اُس کی سرگذشت سے جو بھی سبق حاصل کرنا چاہے کر لے“۔ یہیں پر مصنف نے خود کو ”مجبور محض“ قرار دینے کی فکری غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ انسان پر جو ”گزرتی ہے“ اُسے تو نوشتہ¿ تقدیر سمجھا جاسکتا ہے کیوں کہ اُس میں انسان کی حیثیت مفعولی ہوتی ہے۔ تاہم اپنی شعوری غلطیوں، خطاﺅں اور لغزشوں کو نوشتہ¿ تقدیر قرار دیتے ہوئے اپنی ”فتوحات“ کو فخریہ بیان کرنے کا کوئی جواز نہیں کیوں کہ خیر اور شر میں سے انتخاب کا اختیار انسان کی اپنی صواب دید پر ہے۔ اس نکتے پر مزید بحث آخر میں ہوگی۔ پیش لفظ کے صفحات آٹھ اور نو پر مصنف کا فکری الجھاﺅ واضح ہے۔ ایک طرف تو انہیں اپنے عظیم المرتبت والد کے حوالے سے اپنا تعارف سخت ناپسند ہے۔ دوسری جانب انہیں اس بات پر بہت غصہ ہے کہ بہت سے لوگ انہیں پہچانتے ہی نہیں کیونکہ سب بانیانِ پاکستان کو فراموش کر چکے ہیں۔ یہ محلِ غور ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت ہنوز زیر تعلیم مصنف کا ذاتی حیثیت میں توبانیانِ پاکستان میں شمار ہو ہی نہیں سکتا۔ البتہ ان کے نابغہ¿ روزگار والد کی شہرت ”مصور پاکستان“ کی ہے اور وہ یقینا بانیانِ پاکستان میں سے تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپنے والد کا حوالہ چونکہ مصنف کو ناگوار گزرتا ہے لہٰذا ایسے مواقع پر اُنہیں علامہ اقبال کے علاوہ کس حوالے سے پہچانا جائے ؟ صاف ظاہر ہے کہ جہاں مصنف کی ذاتی حیثیت ماند پڑتی دکھائی دے وہاں وہ اپنے والد کے حوالے سے اپنی شناخت اور اہمیت کے خواہاں ہیں جب کہ دیگر مواقع پر وہ ان کے سائے سے باہر نکلنے کے متمنی رہتے ہیں۔ مُصنف کے ایک جملے سے میں بہت لطف اندوز ہوا۔ تحریر فرماتے ہیں: ”۔۔۔۔۔خواہ سطحی تعلیم سے آراستہ فوجی افسران ہوں، سب کے سب بانیانِ پاکستان کو فراموش کر چکے ہیں“۔ اپنی ذات کی حد تک تو میں نصف جملے کو درست تسلیم کرتا ہوں کیونکہ میں تو خود کو سطحی تعلیم سے آراستہ بھی نہیں سمجھتا۔ تاہم بانیانِ پاکستان میرے دل میں بستے ہیں اور میں انہیں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا۔ مصنف کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ فوج کے افسروں سے لے کر جوانوں تک کسی نے بھی بانیانِ پاکستان کو فراموش نہیں کیا۔ مختصراً اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ نظریہ پاکستان پر جتنا زور افواجِ پاکستان کے ادارے میں دیا جاتا ہے شاید ہی کسی اور جگہ دیا جاتا ہو۔ فوج کے ہر یونٹ ، سٹیشن اور فارمیشن میں کلام اقبال اور دو قومی نظریئے پر بیش بہا کتب موجودہیں جو باقاعدہ تعلیمی نصاب کا حصہ ہیں۔ مصنف نے صفحہ 99-98 پر تحریر کیا ہے کہ 1958 ءمیں انہوں نے جنرل ایوب خان کی فرمائش پر ہی نظریہ پاکستان کی تعریف ، حقوق بشر کے تعین اور بذریعہ آئین اسلام کے عملی نفاذ وغیرہ پر کتابچہ تحریر کیا تھا جس کا دیباچہ خود صدر ایوب خان نے لکھا۔ بھٹو کی جانب سے پابندی عائد ہونے تک انہیں فوج کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اہم قومی امور پر لیکچرز کے لئے بلایا جاتا رہا۔ مصنف یہ بھی بھولے تو نہ ہوں گے کہ ان کو قومی اعزاز سے بھی ایک فوجی حکمران (جنرل مشرف) کے دور حکومت میں ہی نوازا گیا تھااور ان کی اہلیہ محترمہ کو بھی اُسی دور میں بطور جج بحال کیا گیا تھا۔ کتاب کے متن سے بالکل عیاں ہے کہ تمام فوجی حکمرانوں کی خواہش تھی کہ وہ ”فرزندِ اقبال“ کو کسی اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز دیکھیں۔ لہٰذا اس ضمن میں فوج کے ادارے سے ان کا شکوہ بلاجواز ہے۔
اب ذرا کتاب کے متن اور مندرجات پر بات ہوجائے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک بہت قابل مطالعہ (Highly readable)کتاب ہے ۔ تحریر بہت سادہ اور رواں ہے جو قاری کو مزید پڑھنے پر اُکساتی ہے۔ مصنف کی زندگی کے مختلف مراحل پر تحریر کی دل چسپی اور ربط برقرار رہتا ہے جس سے قاری اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ تحریر میں یہ ربط اور ہم آہنگی ایک منطقی سوچ کا نتیجہ ہے جس کے باعث بالکل مختلف واقعات اور حالات پر محیط ابواب باہمد گر پیوست نظر آتے ہیں۔ یہ سوانح صرف ایک فرد کی ذات تک محدود نہیں بلکہ کم و بیش پون صدی کی تاریخ پر محیط ہے۔ اس لحاظ سے اس کی حیثیت ایک تاریخی دستاویز کی سی ہے۔ جو بات انتہائی قابل قدر ہے وہ مصنف کا ذاتی اعتماد ہے جس کے باعث وہ اپنے ددھیال اور ننھیال کی غربت اور تنگ دستی کا ذکر کرتے ہوئے کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا دکھائی نہیں دیتے۔ اسی طرح مصنف اپنی تعلیمی ناکامیوں کی داستان بھی بے کم و کاست بیان کردیتے ہیں۔ چوں کہ انہیں اِن ناکامیوں کی وجوہ کا ادراک ہے لہٰذا یہی ناکامیاں مستقبل میں ان کی شاندار کامیابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ بہت سے مقامات پر انہوں نے رواں تبصرے کی صورت میں قاری کو بھی اپنی سوچ میں شامل کر لیا ہے۔ اسی طرح بعض دیگر مواقع پر انہوں نے جابجا اپنے اخذ کردہ نتائج بھی حالات کی مناسبت سے درج کردیئے ہیں۔ ایسے برموقع تبصرہ جات سے کتاب میں ایک فطری تسلسل پیدا ہوگیا ہے جس کی بنا پر آخری صفحات تک پہنچتے پہنچتے قاری کا ذہن بھی ایک مخصوص سوچ کے سانچے میںڈھلنے لگتا ہے۔ مصنف پہلے غیر محسوس انداز میں قاری کو ”تغذیہ¿ فکر“ فراہم کرتے ہیں،پھر بعض معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرکے قاری کو بھی سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ نتیجتاً قاری خود کو مصنف سے اتفاق یا اختلاف پر مجبور پاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ایک مثبت سوچ تشکیل پاتی ہے۔ مصنف نے ”خود کلامی“ کے عنوان سے ایک علاحدہ باب بھی ترتیب دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی خود کلامی نے قدرے بلند آہنگ سوچ (Loud thinking) کا روپ دھار ا ہے اور کسی استنتاج ، دلیل، اظہار خیال، قیاس، گمان یا استفہام کی شکل میں صفحہ¿ قرطاس پر نمودار ہوئی ہے۔
مثلاً صفحہ نمبر 106 پر تحریر فرماتے ہیں : ”مجھے بھٹو کے رویہ پر سخت افسوس تھا مگر ساتھ ہی مجھے یقین ہوگیا کہ مشرقی پاکستان کبھی نہ کبھی مغربی پاکستان سے علاحدہ ہوجائے گا“۔ صفحہ 135 پر تحریر کرتے ہیں ۔ ”جنرل ایوب خان نے 1962 ءمیں صدرکینیڈی کی بات مانتے ہوئے کشمیر پر حملہ نہ کرکے ایک اچھا موقع ہاتھ سے گنوادیا“۔
صفحہ نمبر 112 پر تحریر ہے : ”پاکستان میں ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ باہر سے آنے والے کسی پاکستانی عالم کو مقامی عالم ٹکنے نہیں دیتے“۔ اسی صفحہ پر پروفیسر حمید اللہ کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات مصنف کے مشاہدے پر دلالت کرتے ہیں ۔
انڈو نیشیا کے صدر سوئیکارنو کے متعلق لکھتے ہیں : ” میں انہیں بڑے تپاک سے ملا لیکن وضع قطع سے وہ دانش ور نہیں لگے اِس لیے میں ان سے متاثر نہ ہوا۔“ یہ جملہ مصنف کی ذ ہنی ساخت اور پسند ناپسند کے معیار کا مظہر ہے۔ اُسی صفحہ پر تحریر فرماتے ہیں: ”میں نے دکھ بھرے طنز کے ساتھ (صدر ایوب خان کو) کہا، سرکیا نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کےلئے ہمیں راسکلز کی تلاش ہے؟ “ مصنف نے صدر ایوب کا جو ابی جملہ تحریر نہیںکیا ورنہ تصویر مکمل ہوجاتی۔
مصنف نے لاہور بار ایسوسی ایشن کا صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد اپنی اعلیٰ ظرفی کے مظاہرے کا ذکر بھی کیا ہے جس سے آئندہ کے لئے ایک خوش گوار روایت نے جنم لیا کہ ہارنے والے امیدوار کے گھر جاکر اُس سے ملاقات کی جائے۔
صفحہ 138 پر ہی بھٹو کی گفتگو کا اقتباس خصوصی اہمیت کا حامل اور ہماری سیاسی قیادت کی سوچ کا غماز ہے :
”بھٹو نے طنزاً کہا، تم تو پروفیسروں جیسی باتیں کرتے ہو۔ بھائی میں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ اس خیال سے نہیں بنایا کہ اس اصطلاح کے کوئی خاص معانی ہیں۔ سیاست میں اصطلاحیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اصل مقصد اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ میں نے یہ نعرہ اسی لئے بنایا ہے کہ مشرقی پاکستان میں جب تک سوشلزم کا نام نہ ہو تو کوئی آپ کی بات سننے کو تیار نہیںہوتا اسی طرح مغربی پاکستان میں اسلام کا نام لئے بغیر کام نہیں بنتا۔ میرا تعلق نہ تو سوشلزم سے ہے نہ اسلام سے۔ اصل مقصد حصول اقتدار ہے“۔
صفحہ 138 پر ہی تحریر کرتے ہیں ”میں نے بھٹو کو مِس فاطمہ جناح کا پیغام دیا کہ مسلم لیگ کو نیا ایجنڈا دے کر فعال بنائیں۔ مگر بھٹو اپنی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی بنانے کی فکر میں تھے۔ کہنے لگے کہ ممتاز دولتانہ ہمارے پاﺅں کے نیچے گھاس نہ اُگنے دیں گے“۔
سیاسی ناانصافیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”پیر یٹی(برابری) کا اصول منوانے کی خاطر مغربی حصہ کو ایک صوبہ بنادیا گیا۔ چار یونٹوں کے وفاقی نظام میں (صوبائی) اٹانومی کے حقوق پامال ہوئے۔ پیریٹی کے اصول کے تحت عددی اکثریت کا ختم کردیا جانا بنگالیوں کو قبول نہ تھا “۔
مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے زخم کو تازہ کرتے ہوئے صفحہ 141 پر تحریر ہے :
”پاکستان کی تاریخ کا نازک ترین دور اب شروع ہونے کو تھا۔ مشرقی پاکستان سے مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان سے بھٹو پاکستان کی تقدیر کے مالک بنے۔ پرانے سیاستدانوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی نہ کسی طرح ملک کا اتحاد قائم رکھا جائے۔ مگر مجیب الرحمن اپنی طاقت کے نشے میں چور تھے اور بھٹو نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ جو بھی مغرب سے مشرق کی طرف جائے گا وہ اُس کی ٹانگیں توڑ دیں گے“۔
یہاں پر مصنف اپنا تجزیہ یوں پیش کرتے ہیں۔ ”اس مسئلے کا سیاسی حل تو یہی تھا کہ مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کی بنا پر عوامی لیگ کو حکومت سازی کی دعوت دی جائے اور پیپلز پارٹی کے لئے یا توڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ مختص کیا جاتا یا وہ اپوزیشن میں بیٹھتی۔ مگر شاید یہ صورت بھٹو کو منظور نہ تھی اور دوسری طرف غالباً مجیب الرحمن بھی مغربی پاکستان میں کوئی دلچسپی نہ رکھتے تھے“۔
اس مقام پر مصنف پولیٹیکل جغرافیے کے اصول کا اعادہ بھی کرتے ہیں کہ” جغرافیائی طور پر غیر منسلک خطے عموماً علاحدہ قومی ریاستیں ہی بنتی ہیں“۔ مصنف کے خیال میں 1947 میں ہی بنگالیوں کو یہ اختیار دے دینا چاہیے تھا کہ وہ چاہیں تو علاحدہ قومی ریاست بنالیں۔ 1970ءکے انتخابات کے سلسلے میں تحریر کرتے ہیں ۔
اس سے پیشتر مولانا روپڑی مرحوم مجھے مرتد قرار دے چکے تھے کیونکہ میں نے شریعت کے بعض امور کی تعبیر نو کے لئے اجتہاد کی ضرورت کا ذکر کیا تھا۔
ووٹر میری ہی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ پر آئے، میرے ہی کیمپ سے قیمے والے نان کھائے چٹیں وصول کیں لیکن اندر جاکر ووٹ بھٹو کو ڈال آئے۔ سیاست سے دست برداری کے ضمن میں بیان کرتے ہیں ”جسٹس سجاد احمد جان نے فرمایا میں آپ (جاوید اقبال) کو اس (سیاست کی) غلاظت میں الجھا دیکھ نہیں سکتا خدا کیلئے اس سے نکلنے کی کوشش کیجئے۔
مصنف نے عدلیہ اور انتظامیہ کے متعلق بھی بہت سے انکشافات کئے ہیں مثلاً انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ پر دباﺅبڑھانے کے مختلف واقعات کا ذکر جن میں ”زور۔ زر اور زاری “ بھی شامل ہیں۔ صفحہ 145 پر تحریر کرتے ہیں :- پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے دو چہرے ہیں ایک ظاہری ایک باطنی۔ سپریم کورٹ کے متعلق فرماتے ہیں۔ یہ پاکستان ہے۔ یہاں سپریم کورٹ آج ایک فیصلہ کرتا ہے اور کل خود ہی اُس کی بساط الٹ دیتا ہے۔ آج فوجی آمر غاصب قرار پاتا ہے تو کل فوجی آمر کا غصب شدہ اقتدار ”ریاستی ضرورت“ کے تحت جائز قرار دے دیا جاتا ہے۔
اسی طرح عدلیہ کی جانب سے دستور کے متعلق مقدمات میں مصلحت، منافقت اور مداہنت پر عمل پیرا ہونے کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ مصنف، جسٹس کرم الٰہی چوہان کے دیئے ہوئے آموختے کا انکشاف کرتے ہیں۔ ”دستور سے متعلق فیصلے جج کے ضمیر کے مطابق نہیں ہوتے۔ ایسے کیسوںمیں، مَیں توہمیشہ دو فیصلے تیار کرکے رکھتا ہوں۔ ایک حکومت کے حق میں اور دوسرا خلاف۔ جو وقتی مصلحت ہو اُسی کے مطابق مثبت یا منفی فیصلہ سنا دیتا ہوں“۔ مزید انکشاف کرتے ہیں-:
ججوں کو خوش کرنے کی خاطر انہیں کراچی لے جایا گیا اور میٹروپول ہوٹل میں ٹھہرائے گئے جہاں رات کو ڈنر کے وقت سب کو ”کیبرے“ دیکھنے کا موقع ملتا …. نیم برہنہ رقاصہ ہمارے قریب سے گزری۔ جسٹس اے آر شیخ نے فخریہ انداز میں بڑمارتے ہوئے مجھ سے کہا کہ جاوید بھائی یہ کیا برہنگی ہے ہم نے تو کینیڈا میں مادرزاد برہنہ لڑکیوں کا رقص دیکھا ہے۔ مولوی مشتاق بولے زہے نصیب ! کینیڈا اور پاکستان میں کچھ فرق تو رہنے دیجئے۔
صفحہ 182 پر تحریر کرتے ہیں ایک سول جج خاص خاص کیسوں میں رشوت کا مطالبہ صرف فارن کرنسی میں کرتے تھے یعنی رشوت دینے والا فریق ہنڈی کے ذریعے رقم سٹرلنگ یا ڈالروں کی صورت میں کسی مقررہ شخص کو ملک سے باہر ادا کردے …….. جب فون پر وصولی کی اطلاع آجائے تو اُس کے حق میں فیصلہ سنا دیا جاتا۔
صفحہ 199 پر دینی جماعتوں کا پول کھولتے ہیں -:
سب سے زیادہ غلط بیانی جے یو آئی کے کارندوں نے کی جنہوں نے مردہ لوگوں کے ناموں پر (سیلاب زدگان کیلئے مختص) امدادی سامان غصب کیا۔
سیاست پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں ”ہمارے اپوزیشن لیڈر جب حزب اقتدار سے بہت ہی مایوس ہوں تو ”اسلام خطرے میں ہے “ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے عموماً فوج کی طرف ہی اپنا رخ موڑتے ہیں۔ جب جمہوریت سے ہمارا جی بھر جاتا ہے تو فوج کے آنے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ جب فوج آجاتی ہے تو جمہوریت کے لئے ترستے ہیں۔ “ ان کا تجزیہ ہے کہ پاکستان کی شکست و ریخت کی سب سے اہم وجہ ”رواداری اور جمہوری کلچر“ کی عدم موجودگی ہے۔ موجودہ فرقہ پرستی وغیرہ رجعت پسند مذہبی عناصر کے جن کے بوتل سے آزاد ہونے کی وجہ سے ہے۔ اسی لئے آج ہم محض فرقوں، قومیتوں اور قبیلوں پر مشتمل ”ہجوم مسلمین“ ہیں۔ انہوں نے بحیثیت سابق جج حدود آرڈیننس میں پائے جانے والے اسقام پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ موصوف نے ایک اہم سوال بھی اٹھایا ہے کہ” یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ جو ختمِ نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی منصب پر غیر مسلم کا استحقاق ہو تو سینیارٹی اور میرٹ کو نظر انداز کرکے اسے اِس منصب سے محروم رکھنا کہاں کا اسلام ہے ؟“ مصنف اس بات پر بھی بہت غیر مطمئن ہیں کہ جب بانیانِ پاکستان کی نگاہ میں پاکستان کو ایک وسیع النظر اور روادار ریاست بننا تھا تو پھر مذہبی طور پر وہ تنگ نظر اور متشدد ریاست کیونکر بن گئی۔ مصنف کی دانست میں ہم بقول اقبالؒ :- ”سلطانی و ملائی و پیری کا کشتہ بن چکے ہیں ۔
مصنف ہمیں اپنے بعض تجربات کا نچوڑ بھی عطا کرتے ہیں فرماتے ہیں :
”ذوق طلب کے پیچھے جب تک بے تابی نہ ہو دعا پوری نہیں ہوسکتی اور انسان جس بھی شے کی خواہش بے چینی سے کرتا ہے وہ شے اُسے مل جاتی ہے۔ “
مزید تحریر کرتے ہیں ”بدی، شر یا گناہ کی ایک تعلیمی حیثیت ہے اور اپنی ”انا“ پر اعتماد کرنے والا انسان بدی کا راستہ اختیار کرکے اُس سے چاہے تو سبق حاصل کرسکتا ہے۔“ تاہم مصنف نے قاری کو اپنے ذاتی تجربات سے حاصل ہونے والے اسباق سے بوجوہ محروم رکھنا قرین مصلحت سمجھا ہے۔
فلسفے کے متعلق فرماتے ہیں ”بجائے اِس کے کہ فلسفہ کی رہبری میں مَیں اپنے آپ کو پہچان سکتا، میرے لئے وہ ذ ہنی طور پر مزید مشکلات کا باعث بنا۔ خدا کو ماننے کے لئے غیب پر ایمان رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔“ مزید فرماتے ہیں:
”علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار اگر اسی طرح قائم رہی تو عین ممکن ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے انسان کو خدا کی ضرورت ہی نہ رہے۔“
جنرل ضیاءالحق کے متعلق ان کی رائے پڑھیے ”مجھے معاً احساس ہوا کہ جنرل صاحب اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے بھٹو صاحب تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک نے اسلام کو اپنے اقتدار کی ڈوبتی کشتی کے تحفظ کی خاطر استعمال کیا اور دوسرے نے اپنے اقتدار کے چڑھتے سورج کے استحکام کے لئے“۔
بطور سینیٹر انہوں نے جمہوریت کے متعلق یہ رائے دی ”رواداری اور قوت برداشت کی عدم موجودگی میں جمہوریت کی گاڑی نہیں چل سکتی“۔ سینٹ کے متعلق ان کابیان ریکارڈ پر ہے کہ” اسمبلیاں یا پارلیمنٹ فقط ڈیبیٹنگ سوسائٹیاں ہیں کیوں کہ وہاں اصل کام یعنی قانون سازی نہیں ہوتی۔ اس بنا پر خدشہ ہے کہ پارلیمانی نظام یہاں کامیابی سے نہیں چلایا جاسکتا“۔
صفحہ 226 پر تحریر ہے جو بات مجھے (بحیثیت سینیٹر) اچھی نہ لگی وہ یہ تھی کہ بحیثیت اپوزیشن ہم بیشتر وقت حکومت کی ٹانگ ہی کھینچتے رہتے اور اُسے قانون سازی کا موقع نہ دیتے۔
بےنظیر اور نواز شریف کے طرز حکم رانی پر ان کی رائے ملاحظہ کیجیے:- بینظیر بھٹو پاکستان میں اصل ”طاقت کی تکون“ یعنی عدلیہ، فوج اور پریذیڈنسی پر حاوی ہونا چاہتی تھیں۔
نواز شریف کے متعلق تحریر فرماتے ہیں ”نواز شریف اب بعض اہم فیصلے کسی سے مشورہ کیے بغیر تنہا کرنے لگے تھے۔ شاید یہ ان کے منصب کا تقاضا تھا یا انہیں کسی پر بھی اعتماد نہ رہا تھا۔ اونچے درجے پر فائز شخص عموماً تنہا ہوجاتا ہے اور تنہائی میں فیصلے کرتے وقت غلطی بھی کرسکتا ہے“۔
وزیر اعظم نواز شریف کچھ حد تک طالبان طرز کا اسلام خود پاکستان میں رائج کرنا چاہتے تھے ۔ ان کی نگاہ میں شاید یہی صحیح اسلام تھا۔
بینظیر بھٹو اپنی پسند کی ڈیموکریٹک ڈکٹیٹر شپ ملک میں نافذ کرنا چاہتی تھیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف بھاری مینڈیٹ کی بنیاد پر اسی طرز کے اختیارات اسلام یا شریعت بل کے ذریعہ امیرالمومنین بن کر لینا چاہتے تھے۔
12 اکتوبر 1999 کے واقعے پر تبصرہ ملاحظہ کیجیے:-
اب صرف فوج پر حاوی ہونا رہ گیا تھا۔ شاید اسی ضمن میں مُغل بادشاہوں کی پیروی کرتے ہوئے وہ ”انوکھا “ اور ”نادر“ قدم اٹھایا گیا جو غلط مقام پر پڑ گیا اور میاں صاحب کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ایک ہر دلعزیز ، باہمت اور نوجوان وزیر اعظم کا محض ایک غلط مشورے کی بنا پر ایسا انجام ہوا جس کا وہ مستحق نہ تھا۔
صفحہ 256 پر فرماتے ہیں: – شیطان تو اپنے تکبر کی وجہ سے راندہ¿ درگاہ ہوا۔ (لیکن) انسان کے معتوب ہونے کا باعث تکبر نہیں بلکہ اُس کی بھوک اور شہوت تھے جو حیوانی خصوصیات ہیں شیطانی نہیں۔
بعض جگہ راز ہائے دردن خانہ کے تذکرے نے کتاب کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔
صفحہ 122 پر تحریر کرتے ہیں۔ ”پارٹی رات گئے تک چلتی رہی بھٹو خوب بہکے بارہ بجے میں نے اجازت چاہی، بولے نصرت کو ہوٹل میں چھوڑتے جاﺅ میں ذرا دیر سے آﺅں گا۔ میں نے بیگم بھٹو سے چلنے کا پوچھا۔ وہ کہنے لگیں ”میں“ اِس……..“ کو یہاں چھوڑ کر نہیں جاﺅں گی“۔
”میں ایئر پورٹ پر بھٹو صاحب کا انتظار کرنے لگا۔ وہ کسی مجرا پارٹی میں ساری رات بیدار رہنے کے سبب ”جاگو میٹی“ کی کیفیت میں آئے اور مجھے گلے لگا لیا “۔
نیو یارک میں بھٹو نے مشن کے سربراہ کی حیثیت میں ایک بہت بڑی پارٹی دی…….. پنک شیمپین کے دریا بہا دیئے …….. ایک ہی پارٹی میں تواضع کے لیے مخصوص انٹر ٹینمنٹ الاﺅنس ختم ہوگیا۔
”کھر کی گورنری کے زمانے میں لاہور میں خاصی ”کُھل“ ہوگئی تھی۔ مجروں کی محفلیں عام جمتی تھیں طوائفوں کے وارے نیارے تھے“۔
مصنف کے لاتعداد بیرون ملک دوروں کی وجہ سے ان کی سوانح ایک جاندار اور دلچسپ سفرنامے کی حیثیت بھی رکھتی ہے جس میں انہوں نے قاری کو مختلف تاریخی مقامات سے متعارف کرایا ہے اور اہم تاریخی واقعات پر بھی بحث کی ہے۔ مصنف کی ایک دل چسپ رائے ملاحظہ کیجیے۔ ”شہزادہ فیصل السعود کے علاوہ مجھے تو سب سعودی شہزادے طویل قامت کھجور کے درختوں کی طرح لگتے ہیں۔ مال دار ضرور ہیں مگر سایہ اس لیے نہیں ہوتا کہ دانش سے عاری ہیں اور اس کمزوری کو چھپانے کی خا طر تکبر کے دامن میں پناہ لیتے ہیں“۔ الحمرا کے متعلق فرماتے ہیں :- غرناطہ میں قصر الحمرا اور اُس کے عجیب و غریب باغات کی خوبصورتی سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انہیں جنات نے تعمیر کیا تھا …….. طرز تعمیر سے اندلس کے اموی حکمرانوں کی عظمت اور شان کا اندازہ ہوتا ہے۔
موصوف کینٹن (چین) میں ایک سکول کی عمارت میں واقع عدالت کا ذکر کرتے ہیں جہاں مکمل سنسانی کا عالم تھا۔ مصنف کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ انقلاب کے بعد ہزاروں کی تعداد میں ملزموں کو اکٹھا کر کے چیئر مین ماﺅ کی ہدایت پر سرسری سماعت کے بعد موت کی سزا دے دی گئی تھی۔ اُس کے بعد اِس عمارت میں کبھی فوجداری عدالت لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی“۔ قاری خود کو سوچنے پر مجبور پاتا ہے کہ شاید بڑھتے ہوئے سنگین جرائم پر قابو پانے کے لیے ہمیں بھی یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے بشرطیکہ سیاسی قیادت ملک کو جرائم سے پاک کرنے کا عزم رکھتی ہو اور کسی کو ذاتی مخاصمت کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
صفحہ نمبر 131 پر ایک چینی بچی کا مختصر احوال درج ہے جو ہتھیلی پرمُشقت سے پڑنے والے گھٹّوں (چنڈیوں ) کو ستارے قرار دیتی ہے۔ بارش کیلئے دعا مانگنے کے سلسلے میں وہی بچی کہتی ہے ”دعا مانگنا تو بھیک مانگنا ہے۔ ہم لوگ کسی سے کچھ نہیں مانگتے بلکہ اپنے بازوﺅں کے زور سے خود زمین کھود کر پانی نکال لیتے ہیں“۔
یہ واقعہ گہری سوچ کا متقاضی ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم خود کو صرف اللہ سے دعا کرنے تک ہی محدود کر رکھا ہے اور عمل بالکل ناپید ہے۔ حالانکہ اقبال ؒ کہتے ہیں
ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پید ا کر
مرزا غالب جیسے رندِ خرایات کا پیغام بھی یہی ہے کہ ع
توفیق بَاندازہ¿ ہمت ہے ازل سے
ہم ہمت کا مظاہرہ بالکل نہیں کرتے اور صرف توفیق طلب کرتے رہتے ہیں تو کامیابی کیوں کر ملے ؟
زیر نظر کتاب میں قاری کے لئے دل چسپی کا بہت سامان ہے۔ مصنف نے قاری کو مختلف خطوں کی ثقافت بود و باش اور پسندیدہ کھانوں سے بھی متعارف کرایا ہے۔ مصنف نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ سانپ کے گوشت کا ذائقہ بالکل تیتر کے گوشت جیسا ہوتا ہے۔ وہ قاری کو میکسیکو کے ریڈ لائٹ ایریا کی نہ صرف سیر کراتے ہیں بلکہ وہاں ایک میکسیکن بدمعاش کی دھنائی بھی کردیتے ہیں جیسے کہ انہوں نے اوائل عمر میں لاہور کے بازارِحسن میں ایک غنڈے کی پٹائی کی تھی۔
مصنف نے علامہ اقبال کے نام ”دوسرا خط“ اور ”خود کلامی“ کے عنوان سے دو علاحدہ ابواب میں بہت سے اہم نکات اٹھائے ہیں جو تاحال تشنہ جواب ہیں۔ حال ہی میں مصنف نے اپنی سوانح کے نئے ایڈیشن کے لئے دو ابواب کا اضافہ کیا ہے جس میں انہوں نے بعض معاملات میں مایوسی کا اظہار کیا ہے اور بعض سوالات کا خود ہی شافی جواب بھی دیا ہے۔ وہ اپنے ہی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ”نہیں ایک نیو کلیر ریاست ناکام کیسے ہوسکتی ہے البتہ بیمار ریاست ضرور ہے۔ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں بلکہ اِس کی موجودہ قیادت ایک ناکام نسل کے ہاتھوں میں ہے“ ۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے وہ اظہار خیال کرتے ہیں کہ ”اگر طالبان غدار، سرکش یا دشمن ہیں تو ان کے ساتھ پاکستان کی اپنی شرائط پر ہی مفاہمت ہوسکتی ہے“۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ”پاکستان کی موجودہ حکومت کس حیثیت سے دہشت گردوں یا طالبان کے ساتھ مفاہمت کرنے نکلی ہے۔ ہارنے والے فریق کی مانند یا جیتنے والے فریق کی طرح؟“ یہ وہ مقام ہے جہاں
ع متفق گر دید رائے بو علی بارائے من
یہاں پر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی دل چسپ اور اہم کتاب اتنی متنازع کیسے قرار پاگئی؟ راقم کی دانست میں اس کی ایک وجہ حسینانِ فرنگ سے اختلاط کی داستانیں ہیں جو یقینا قابل قبول ہوتیں اگر انہوں نے قارئین کو اپنے عہد جوانی کے ”غیر نصابی تجربات“ سے اخذ کردہ اسباق اور نتائج سے آگاہ کرنے کے علاوہ (چاہے بین السطور ہی سہی ) کہیں پشیمانی یا ندامت کا اظہار بھی کیا ہوتا۔ موجودہ صورت میں یہ رنگین داستان علامہ اقبال کے آج کے ”شاہین بچے“ پر یقینا منفی اثرات کا موجب بن سکتی ہے۔ ایک عام مشاہدہ ہے کہ بیشتر مشاہیر کے متعلقین اس نفسیاتی الجھن کا شکار رہتے ہیں کہ ”میں کون ہوں اور میرا مقام کیا ہے؟“ بقول اقبال ؒ
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست
مجھے اتنا بتادیں میں کہاں ہوں
جب وہ اظہار ذات کی خاطر بعض ناپسندیدہ مشاغل اپنا لیتے ہیں تو مشاہیر کو طارمِ اعلیٰ پر بٹھانے والے ان کے پرستاروں کے لئے اس نئی صورتحال سے مفاہمت کرنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔
جسٹس جاوید اقبال کے سلسلے میں اِس الجھن میں اضافہ یوں ہوگیا ہے کہ علامہ کے مداحین اور پرستار جب فرزندِ اقبال کی شخصیت کو علامہ اقبال کے تصورات اور نظریات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو خود کو بند گلی میں پاتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل جاوید اقبال کو کہا تھا ”جاوید بن کر دکھاﺅ تو جانیں“ لیکن جاوید اقبال نے اپنے لئے علاحدہ راہ تراشی اور والد کی ہر نصیحت کے خلاف عمل کیا۔ پاکستانی عوام نے جو علامہ اقبال کو ہمیشہ سے حکیم الامت سمجھتے آئے ہیںجب جاوید اقبال میں اقبال کے شاہین کو دیکھنا چاہا تو ان کی امید بر نہ آئی۔ تاہم جب تک انہوں نے اپنی سوانح حیات نہ لکھی تھی ان کی زندگی کا یہ مخصوص پہلو عوام کی نظر سے اوجھل رہا۔ ان کی سوانح میں کیے گئے انکشافات عوام اور خواص کے لئے جذباتی صدمے کا باعث بنے۔ بیشتر اصحاب الرائے کی دانست میں مصنف اپنی ذاتی زندگی کے بعض مخفی پہلوﺅں کی پردہ کشائی نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔
کتاب پڑھ کر قاری کے ذہن میں بھی وہی جملہ آتا ہے جو محترمہ ناصرہ جاوید اقبال کی بحالی پر ایک سینیٹر نے جسٹس جاوید اقبال پر کسا تھا کہ ”ڈاکٹر صاحب تسی تے بالکل ساڈے ورگے ای نکلے“۔
مصنف کے دو سوالوں کا جواب ہم پر قرض ہے :
1۔    کیا میں اُس (علامہ اقبال کے) سائے سے نکل کر اپنا سایہ بنا سکا؟
2 ۔    میں کس حد تک کامیاب ہوا اور کس حد تک ناکام؟
موصوف کے سوالات کے جواب تو زیرِ بحث کتاب کے دیباچے ہی میں ہی موجود ہیں ۔ موصوف فرماتے ہیں :
”دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں (بلکہ ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے) جو مجھے پہچانتے ہی نہیں یعنی انہیں معلوم ہی نہیں کہ میں کون ہوں“۔ جہاں تک علامہ اقبالؒ کا تعلق ہے تو لاریب برصغیر پاک و ہند کا بچہ بچہ اُنہیں اُن کے کام، نام اور مقام و مرتبے سے بعد از مرگ بھی جانتا اور پہچانتا ہے۔ علامہ اقبال تو گوشہ¿ گمنامی سے نکل کر اپنی ذاتی مساعی سے دائمی ناموری سے ہم کنار ہوئے جبکہ مصنف ایک بنے بنائے سپرنگ بورڈ کے باوجود اپنے والد جیسی شہرت، ناموری، اور بے نظیر عقیدت و اِرادت حاصل نہ کر پائے۔ لہٰذا ہم یہ فیصلہ مصنف پر ہی چھوڑتے ہیں کہ اپنے والد کے مقابلے میں ان کی کامیابی کس معیار کی ہے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ” ہاتھی پھرے گاﺅں گاﺅں جس کا ہاتھی اسی کا ناﺅ ں“ ۔ جسٹس صاحب کی تمام کامیابیوں سے قطع نظر اُن کا حوالہ ہمیشہ اُن کے عظیم والد ہی بنیں گے ۔
مصنف نے کئی مواقع پر اپنے والد سے آگے بڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس خواہش میں حق بجانب ہیں کیوںکہ یہ کوئی ناجائز خواہش نہیں۔ لیکن کیا موصوف اس خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے والد کی طرح غیرمعمولی اہمیت والا کوئی لازوال کارنامہ سر انجام دے سکے ہیں؟ انہوں نے اپنے والد کے نام خط میں ان کے نظریات کے حوالے سے بہت سے ایسے سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب وہ خود بھی نہیں دے پائے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر وہ ان سوالوں کے جوابات ہی رقم کردیتے یا کوئی متبادل حل تجویز کر دیتے۔
مصنف نے بہت سے قابلِ قدر کام بھی کئے ہیں جن میں ”زندہ رود “ اور تسہیل خطبات اقبال“ جیسی اہم کتب کی تصنیف بھی شامل ہے۔ تاہم انہوں نے خود کو خطبات کی تسہیل تک ہی محدود رکھا ہے۔ ہم تو انہیں اقبال کا ہم پلہ تب مانتے اگر انہوں نے اسلامی فکر کی تشکیل نو کے سلسلے میں مزید فکری کام کرکے عالم اسلام کو در پیش مسائل کا قابلِ عمل حل پیش کیا ہوتا۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ مصنف کو عُمرِ خضر عطا فرمائے کیوں کہ اپنے عظیم المرتبت والد سے آگے بڑھنے کے لئے اُنہیں کم و بیش اتنا ہی عرصہ درکار ہوگا۔
٭….٭….٭….٭….٭

اِس شمارے / ادب پارے پر تبصرہ کیجیے